گاؤں کا خاتمہ زراعت کا خاتمہ یعنی انسانی خوراک کا خاتمہ

گاؤں شہر ہو گئے گویا قہر ہو گئے سادہ مگر خالص۔ رنگین مگر مصنوعی۔ گاؤں اور شہر کی زندگی پر مبنی دلچسپ تحریر تحریر: ظفر اقبال ظفر میں ایک دیہاتی خاندان کے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں روپے پیسے کی جگہ گندم کی دولت استعمال ہوا کرتی تھی میری دادی دوکان سے گھی منگوانے کے لیے مجھے اک کٹورے میں گندم ڈال کر دیتی تھیں اور دوکاندار ترازو میں تول کر گندم اپنے پاس رکھ لیتا اور اس کے بدلے گھی تول کر اسی کٹورے میں ڈال کر واپس تھما دیتا میں کئی بار چھپکے سے گندم کی کٹوری بھرتا اور دوکاندار کو دے کر کھانے کی اشیاء لے لیتاتب مجھے اندازہ ہوا گندم دولت کا نام ہے کاغذ کے نوٹ تو میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھے گاؤں کے بوڑھے بابے اپنے سے بھی بوڑھے گھنے درخت کے نیچے بیٹھ کر باتیں کرتے کہ یہ سکے اور نوٹ غربت ختم کرنے کا زریعہ تو ہو سکتے ہیں مگر خوشحالی ان کی حوس کے بغیر ہی ممکن رہتی ہے انہوں نے ان سکوں اور نوٹوں کی وجہ سے گھر ٹوٹتے رشتے قتل ہوتے دیکھے تھے وہ لوگ اسے انسان کھانے والی بلا کا نام دیتے تھے یہی وجہ تھی کہ غریب انسان اتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے تھے جیسے میری دادی تھیں میرے دادا نے شام کو ان کی ہتھیلی پر بھوک رکھی تو دادی کے صبر نے صبح کیلئے روزے کا اعلان کر دیاغربت میں جکڑے لوگوں کو ان کی بیویاں مضبوط اور بے فکر رکھنے کے ماحول میں گھراور نسلیں چلاتی تھیں آج کی عورت جس کے مقدر میں مالک نے رزق لکھا ہے وہ خودبدقسمت ہوتے ہوئے خاوند کی زندگی عذاب بنانا اپنا حق لینے کی لڑائی سمجھتی ہے یہ گاؤں کے ان پڑھ لوگوں کا طرز حیات ہے جہاں غریب کی بیٹی محدود وسائل میں بھی غیرت کی پاسداری کے ساتھ رشتوں کی قدر کرتے ہوئے خوش رہنے اور رکھنے کی تربیت جہیز میں لاتی ہے جہاں عیش و عشرت کے نام پر لڑائیاں تو دور کی بات اس کی خواہشیں کرنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا مرد شام کو مزدوری کی رقم بیوی کو تھماتا ہے یااس سے راشن خرید کر بیوی کے حوالے کرتا ہے اور جہاں مزدوری کا نام ونشان نہ ہو سب لوگ مل کرزمین پر محنت کرتے ہوں پھر زمین جو رزق تیار کرکے ان کے حوالے کرئے اسے محنت کا حصہ بننے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا اس نظام کو سیپی کہا جاتا ہے سال بھر کی گندم اکھٹی کرکے رکھ لی جاتی کہ سالن کی خیر ہے نہ بھی ہو مگر روٹی تو مرچوں کے ساتھ بھی کھائی جا سکے چاٹی کی لسی کو چھینی میں ڈ ال کر اس میں عورتوں کے ہاتھوں دوری میں رگڑی ہوئی لال مرچ ڈال کر شوربے کی شکل دینے کو لسن پلاؤ بنا کر روٹی کے نوالے بھگو بھگو کر مزے مزے سے کھاتے تھے ساگ سبزیاں اپنے اور مہمانوں کے لیے پکاتے تھے گوشت عید پر زیادہ مویشی رکھنے والوں کی طرف سے تھوڑا ساملتا تھا جیسے شوربے والا بنایا جاتا تاکہ سب کھا سکیں ایک ہی حالات میں مبتلا لوگوں میں حسد کی بیماری نہیں ہوتی تھی کیونکہ وجہ حسد سکوں اور نوٹوں کی موجودگی میں پائی جاتی ہے یہاں تو زمین جانوروں اور انسانوں کو خدا کی جو نعمتیں سونپتی ہے اس کے تبادلے سے ہی زندگی چلائی جاتی ہے یہ گاؤں ہے صاحب یہاں آج بھی غریب سے غریب لوگ اپنے ہمسایؤں کے گھروں میں فاقے نہیں ہونے دیتے مٹی کی کنالی میں آٹا گھوندا جاتا اور مٹی کی ہی ہانڈی میں سالن پکتا مٹی کا ہی بنا ہوا چولہاجس میں لکڑیوں اورگوبر کی بنی تھاپیوں کی آگ جلتی اور کسی گھر کا چولہا کبھی بجھتا نہیں تھا مطلب راکھ کے نیچے چھپی چنگاڑیاں کسی وقت بھی پھوکنی کی ہوا پانے سے دہک جاتیں پھر اس پر ہانڈی چڑھا دی جاتی سالن پکتے ہی کٹوری میں ڈال کر دائیں بائیں کے گھروں میں بھیجا جاتا اور اسی کٹوری میں ہمسائیوں کے گھروں میں پکا سالن آ جاتا اس عمل کی برکت سے چولہے کے اردگرد زمین کے دسترخوان پر بیٹھے افراد ایک سالن پکاتے اور تین طرح کے کھاتے تانبے کے برتنوں میں کھانے کی افادیت صحت کے برقرار رہنے میں مدد دیتی چاٹی کی لسی جس میں ڈلی والا نمک ڈال کر ہلاتے جب ذائقہ درست ہوتا تو نمک کی ڈلی نکال لیتے۔میٹھے میں گڑ کی بنی چیزیں جیسے دلیا کھیراور میٹھی روٹیاں جو کبھی گاؤں کی مشترکہ بھٹی پر اور کبھی گھر کے تندور یا توے پر پکائی جاتیں۔کیسے سادہ وقت جس میں زمینی بجلی کا نہ گمان تھا نا چاہت کیونکہ کبھی کبھار تیز آندھیوں کے ساتھ ہونے والی بارشوں میں آسمانی بجلی کے خوف اور نقصانات نے اس کا نا ہونا ہی فائدے میں رہنا بتاتا تھا۔گرمیوں میں درختوں کی چھاؤں اور قدرت کی ہواؤں نے چارپائیوں کے طواف کرنے تو خوشحال روح نے جسم کو لوریاں دے کر سلا دینا اور سردیوں میں دوچادروں میں روئی رکھ کے ہاتھ والی سوئی سے تروپے لگا کر بنی رضائیوں میں سونے کا الگ ہی سکون مٹی کے دئیے میں سرسوں کا تیل ڈال کر روشنی بناتے لالٹین گھر روشن رکھنے میں مدد دیتی۔قتل کے علاوہ کسی بھی قسم کا جرم ہو جاتا تو گاؤں کے بزرگوں کی پنچایت انصاف کے تقاضے پورے کرتی مگرجرم بہت ہی کم بلکہ کئی سالوں میں ہی پیش آتا گاؤں کی کئی نسلوں نے تو پولیس عدالت دیکھی ہی نہیں تھی ایسے ہی ڈاکڑوں کا نام و نشان نہیں تھا اور گاؤں کا ہر بوڑھا شخص حکمت جانتا ہوتا تھا جہاں بیماری پیدا ہوتی وہیں سے علاج پیدا کر لیتے۔ہر ماں باپ بننے والے کے پاس اپنے بزرگوں کی وراثت میں تربیت کرنے کے لیے ہزاروں نصیحتیں ہدایات اور قصے موجود ہوتے اور کچی مسجد کے پکے نمازی قرآن پاک کی تعلیم ہی سب سے افضل اور ضروری مانتے جس کے لیے لڑکوں کو مولوی صاحب مسجد میں اور مولوون صاحبہ لڑکیوں کو گھر میں پڑھاتے اور ان کے لیے صبح شام گاؤں کے گھروں سے بچوں کے ہاتھوں پکا ہوا کھانا پہنچایا جاتا گویا ان گنت باتیں ہیں جن پر بڑی خوبصورتی سے گاؤں کی سادہ خوشحال مطمن زندگی کا حسن بیان کیا جا سکتا ہے مگر مضمون کتاب بن جائے گا اس لیے بامقصد پہلو کی طرف آتے ہیں جس کی عکاسی کرکے وہ بات پہنچائی جائے جس کے لیے قلم اٹھا ہے۔اب ان گاؤں کے سادہ لوگوں کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے بجلی دے دی گئی اور اس بجلی کے فائدے کو منفرد کرنے کے لیے ٹی وی متعارف کروائے گے اب گاؤں کے گھر وں میں ٹی وی چلتے ہیں جس میں عالیٰ شان مکان گاڑیاں سٹرکیں شہر کی رنگینگیاں دیکھائی جاتی

گاؤں کا خاتمہ زراعت کا خاتمہ یعنی انسانی خوراک کا خاتمہ