عالمی فٹبال کپ المعروف FIFA لیاری کو موقع دو

امریکہ(معسود ابدالی) مراکش کے ہارنے کا افسوس تو ہوا لیکن شیرانِ اطل (Atlas Loins) نے شاندارکھیل اور باقار انداز میں شکست تسلیم کرکے تماشائیوں کے دل جیت لئے۔ کھیل ختم ہونے پر رونے دھونے اور جھنجھلانے کے بجائے انتہائی متانت و انکسار سے اپنے رب کو سجدہ کیا کہ ہر حال میں اسکا شکر ، جسکے بعد ہر مراکشی کھلاڑی نے اپنےفرانسیسی ساتھیوں سے گرمجوش مصافحہ کیا اور پیٹھ تھپتھپائی۔کچھ کھلاڑی گلے بھی ملے کہ کھیل کھیل ہے اور کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ آخری سیمی فائنل تک تقریباً تمام مقابلے براہ راست دیکھنے اور اس پر ماہرین کے رواں تبصرے سننے کا موقع ملا۔ ریٹائرمنٹ کا مزہ۔ ہمیں اس دوران اپنا بچپن یاد آیا جب لیاری کی تنگ و تاریک اور متعفن گلی میں بچے فٹبال کھیلتے تھے۔ ایک ایک آنہ جمع کرکے بندرروڈ کی جناح اسپورٹس سے فٹبال خریدی جاتی۔اس زمانے میں بلیڈر والی فٹبال ہوتی تھی جس میں پمپ سے ہوا بھری جاتی تھی اور چپلوں سے گول بناکر تین بجے شام سے مغرب تک کھیل ہوتا، چھٹی والے روز سارا دن۔ یہ تو بچوں کا کھیل تھا۔ 'ماہرین' کی ٹیمیں بھی تھیں، جن میں بہارکالونی کی الیون اسٹار، ینگ ہنگورو، کلاکوٹ اسپورٹس، امام بخش الیون، بجلی کلب، شیدی الیون، شاہ بیگ فٹبال کلب، بلوچ اسپورٹس، پنجگور الیون کے نام ابھی تک یاد ہیں۔لیاری ہے تو شہر کی پسماندہ ترین بستی لیکن اسکے کھیل کے میدان اب تک قبضہ گروپ کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہیں اور اکثر جگہ ان میدانوں میں فٹبال کھیلی جاتی ہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں عالمی معیار کا فٹبال اسٹیڈیم بنا جسکی مزید تزئین عبدالستار افغانی مرحو م نے کی۔ افغانی صاحب نے لیاری سے باہر بھی فٹبال اسٹیڈیم بنوائے۔ قطر فیفا جن پاکستانی ماہرین نے دیکھا انکا خیال ہے کہ اگر توجہ دی جائے تو لیاری کے بچے بھی اس میدان میں نام پیدا کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے فٹبال غریبوں کا کھیل ہے اور پاکستان میں غریبوں کو ہر شعبے میں نظرانداز کیا جاتا ہے، کھیل کود بھی اس میں شامل ہے۔ ہمارے یہاں تما م وسائل کرکٹ کیلئے وقف ہیں جو سارے کھیلوں میں سب سے قیمتی مشغلہ ہے۔ سیاست و امامت کی طرح اب کرکٹ پر بھی موروثیت کے اثرات نظر آرہے ہیں، چنانچہ اس کھیل کی سرپرستی دن بدن مستحکم و موثر ہوتی جارہی ہے۔ عالمی فٹبال میں لیاری نام پیدا کرچکا ہے جب 2013 کے Street Child Worldکپ میں پاکستانی لڑکے تیسرے نمبر پر آئے۔یہ مقابلے برازیل میں ہوئے تھے جہاں پندرہ ملکوں نے شرکت کی۔ سیمی فائنل میں ہارنے بعد ہمارے بچوں نے امریکہ کو شکست دیکر تیسری پوزیشن حاصل کی۔ یہ میچ ایک ایک سے برابر تھا اور لیاری کے نونہالو ں نے ضرباتِ تاوان (Penalty Strikes) پر مقابلہ جیتا۔ ہمیں اور لوگوں سے امید نہیں لیکن سیاسی فضا بتارہی ہے کہ حافظ نعیم الرحمان نئے رئیسِ شہر ہوں گے۔ انشااللہ ۔ لیا ری کی سیاسی قیادت پہلے ہی ایک شائقِ فٹبال سید عبدالرشید کے ہاتھ میں ہے۔ غربت ، غلاظت اور ناخواندگی کے باوجود لیاری کی شناخت اسکی نظریاتی سیاست اور مدنی بیداری (Civic Sense)ہے۔وہاں کھیلوں کے میدان آباد ہیں۔ ہمیں یاد ہے جب پاکستان میں ٹیلی ویژن آیا تو عثمان پارک میں عوام کیلئے دو ٹیلی ویژن نصب ہوئے۔ کراچی میں پارکوں سے بلب اور آہنی دیواروں سے سلاخوں کی چوری عام ہے لیکن وہ دونوں ٹیلی ویژن خراب ہونے کے بعد بھی وہاں سے غائب نہیں ہوئے لیاری میں فٹبال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ جسکے لئے سرمائے سے زیادہ توجہ درکار ہے۔ اگلا فیفا 2026 میں ہوگا جسکی میزبانی امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کرینگے۔ کل 80 میں سے ساٹھ مقابلے ہیوسٹن سمیت امریکہ کے دودرجن سے زیادہ شہروں میں ہونگے اور دس دس میچ میکسیکو اور کینیڈا میں کھیلے جائینگے۔ کوارٹر فائنل سے فائنل تک کے تمام مقابلے امریکہ میں ہونگے۔ سب سے اہم بات کہ شرکا کی تعداد 32 سے بڑھا کر 48 کی جارہی ہے گویا 16مزید ملک قسمت آزمائی کرسکیں گے۔اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے لیکن وقت کم اور مقابلہ سخت ہے

عالمی فٹبال کپ المعروف FIFA لیاری کو موقع دو