صدر کا دورہ سعودی عرب ۔۔فلسطین سے اظہارِ یکجہتی نئی عالمی صف بندی

امریکہ :معسود ابدالی چینی صدر ژی جن پنگ کا حالیہ دورہ سعودی عرب اب تک ابلاغِ عامہ کی زینت بناہوا ہے۔ اس تین روزہ دورے میں تین اہم بیٹھکیں ہوئیں: • سعودی چین سربراہی اجلاس • چین خلیج چوٹی کانفرنس اور • عرب چین اعلیٰ سطحی گفتگو ان اجلاسوں میں شرکت کیلئے فلسطین، قطر، کوئت، مصر، سوڈان، تیونس، جبوتی، صومالیہ اور موریطانیہ کے صدور تشریف لائے جبکہ عراق، مراکش، الجزائر اور لبنان کی نمائندگی ان ملکوں کے وزرائے اعظم نے کی۔ عرب چین چوٹی کانفرنس کیساتھ علیحدہ سے چین خلیجی سربراہی اجلاس کا مقصد خلیج تعاون کونسل (GCC)کی اہمیت اجاگر کرناتھا۔ بحرین، قطر، عُمان، کوئت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل یہ اتحاد، جون 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورمصر کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کے بعد کمزور ہوگیا تھا۔ ان ملکوں کو شکائت تھی کہ الجزیرہ ٹیلی ویژن خلیجی اور مصری حکمرانوں کے بارے میں معاندانہ رویّہ رکھتا ہے۔ مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، قطر کی جانب سے اخوان المسلمون اور حماس کی مبینہ سرپرستی پر بھی برہم تھے۔ قطرکا موقف تھا کہ الجزیرہ ایک آزاد ادارہ ہے اور اسکی نشریات سے قطری حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ دوحہ سرکار نے اخوان اور حماس سے تعلقات کے الزامات کو بھی مسترد کردیا۔ قطر کے خلاف اقدامات کو سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی حمائت حاصل تھی۔اس دوران سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، مالدیپ، موریطانیہ، ماریشس، سوڈان، سینیگال، جبوتی، اردن اور یمن کی وفاقی حکومت نے قطر سے نہ صرف سفارتی تعلقات توڑ لئے بلکہ اپنی فضائی حدود بھی قطر کیلئے بند کردی۔ سعودی عرب نے قطر کا بری راستہ بھی مسدود کردیا جو بیرونی دنیا سے خشکی کے ذریعے رابطے کا واحد ذیعہ ہے۔ اس قدم سے قطر کو نقصان پہنچنے سے پہلے خود GCCمیں دراڑ ظاہر ہوگئی جب عُمان اور کوئت نے بائیکاٹ میں حصہ لینے سے معذرت کرلی۔ اس کشیدگی کو علاقے کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے 'عرب سرد جنگ' کا نام دیا لیکن قطر کے وزیردفاع خالد محمد بن العطیہ کے خیال میں یہ قطر کے خلاف ایک 'پرامن (bloodless) اعلان جنگ تھا۔ بائیکاٹ سے دو ماہ پہلے دوحہ نے خلیج فارس میں گیس کی تلاش کے لئے ایران سے معاہدہ کیا تھا جو گزشتہ بارہ سال کی غیر اعلانیہ سردمہری کے خاتمے اور مشترکہ قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی میں باہمی تعاون کا نقطہ آغاز تھا۔ خلیج فارس میں ایران اور قطر کی آبی سرحد کے دونوں جانب9700 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے 65 میٹر گہرے پانی کے نیچے تین ہزار میٹر گہرائی پر موجود گیس ذخائر کا تخمینہ 36کھرب مکعب میٹر (360 trillion)ہے۔ تقریباً 10 کھرب مکعب میٹر گیس ایرانی علاقے میں ہے جو جنوبی پارس گیس میدان کہلاتا ہے۔ قطری علاقے میں گیس سے لبالب نمکین چٹانوں (Anhydrites)نے گنبد کی شکل میں گیس کو ذخیرہ کررکھا ہے چنانچہ اسے North Domeگیس میدان کا نام دیا گیاہے۔ قطری پانی کے نیچے موجود قابل کشید گیس کا حجم 26 کھرب مکعب میٹر ہے۔ قدرتی وسائل کی ترقی میں باہمی تعاون سے قطر اور ایران کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوچکی تھی اور سعودی و اماراتی بائیکاٹ نے دوحہ کو تہران کے مزید قریب کردیا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ترکیہ بھی قطر کی پشتیبانی کو آگیا۔ صدرایردوان نے کہا کہ انھیں اپنے بھائیوں کے درمیان کشیدگی پر سخت افسوس ہے اور انقرہ اس تنازعے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے قطری بھائیوں کو فاقہ کشی کا شکار نہیں ہونے دیگا۔قطر نے ترکی اور ایران کی مدد سے اس بائیکاٹ کو ناکام بنادیا۔ ساتھ ہی قطری قیادت نے صدرٹرمپ کی تجارتی ذہنیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی اسلحے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی اور دو دن پہلے قطر کو دہشت گردوں کی سہولت کار ریاست قرار دینے والے امریکی صدر نے قطر کو جدید ترین F-15QA-1لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی منظوری دیدی اور اگلے ہی روز واشنگٹن میں قطری سفیر مشال حماد الثانی نے امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس کے ہمراہ 12 ارب ڈالر مالیت کے 36 طیارے کےسودے پر دستخط کردئے۔ صدر ٹرمپ نے اس سے چند دن پہلے سعودی ولی عہد شہزداہ محمد بن سلمان کو 110 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا تھا۔ شہزادہ صاحب امریکی حکومت کی اس ' تجارتی سیاست ' پر سخت مایوس ہوئے۔ بائیکاٹ کرتے ہوئے انھیں امید تھی کہ امریکہ دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگاکر دوحہ پر تجارتی پابندیاں عائد کریگا تاکہ ایران اور ترکیہ کو مدد سے باز رکھاجاسکے لیکن صدر ٹرمپ نے جدید ترین اسلحہ فروخت کرکے قطر کو 'نیک چلنی'کی سند عطاکرتے ہوئے اسےوفادار اتحادی کا درجہ دیدیا۔سعودی ولی عہد جان گئے کہ امریکی اسلحے کی فروخت ٹرمپ سفارت کاری کا بنیادی ستون ہے اور وہ نئے سودے کیلئے پرانے وعدے بھلانے میں ذرادیر نہیں لگاتے۔ اس تنازعے میں امریکی حکومت کے غیر جانبدرا ہوجانے کے بعد قطر مزیدپر اعتماد ہوگیا اور روزمرہ غذائی ضرورت کا سامان اپنے پڑوسی سعودی عرب کے بجائے ترکی، ایران، یورپ اور ایشیا کے دوسرے ممالک سے منگوانا شروع کردیا۔ بار برداری کا خرچ بڑھنے کے ساتھ قطر کو ابتدا میں کچھ اشیا کی قلت کا سامنا ہوا لیکن چند ہی ہفتوں میں صورتحال معمول پر آگئی۔ قطری وزیرخزانہ علی شریف العمادی پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ انکے خوشحال اور صاحب ثروت ملکے کیلئے اس بائیکاٹ کا مقابلہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ جلد ہی سعودی اور اماراتی قائدین کو اندزہ ہوگیا کہ بائیکاٹ سے قطر کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن خلیجی اتحاد عملاً غیر موثر ہوگیا۔کوئت کی کوششوں سے بات چیت کا آغاز ہوا اور گزشتہ برس کے آغاز میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرلئے۔ عالمی فٹبال کپ کے دوران 5 دسمبر کو امارتی صدر شیخ محمد بن زید النہیان بہ نفس نفیس دوحہ پہنچے اور پھر تو وہ کیفیت ہوئی کہ 'جب گلے سے لگ گئے سارا گِلہ جاتارہا' قطر ایران گیس منصوبے اور بائیکاٹ کی تفصیل شائد قارئین کو غیر ضروری محسوس ہو لیکن یہ وہ پس منظر ہے جس میں سعودی عرب اور امریکی تعلقات میں درآئی غیر محسوس خلیج کےشانِ

صدر کا دورہ سعودی عرب ۔۔فلسطین سے اظہارِ یکجہتی نئی عالمی صف بندی