سعودی شام سفارتی تعلقات امریکہ بہادر پریشان، اسرائیل مشتعل

امریکہ(معسود ابدالی)ڈھائی ہفتہ قبل چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اسکے ساتھ ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کو مملکت کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ ایرانی صدر نے شاہی دعوت کو پوری ایرانی قوم کیلئے باعثِ شرف قراردیتے ہوئے کہا کہ خاک طیبہ ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے، آپ کی دعوت سے ہم نہال ہیں لیکن سعودی عرب آنے کیلئے ہمیں رسمی دعوت کی ضرورت نہیں کہ بھائیوں میں کیا تکلف۔ سعودی وزارت خارجہ نے ایران کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے اور دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات رمضان ہی میں متوقع ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے سوا ساری دنیا نے اس شاندار پیش رفت کا خیر مقدم کیا ۔عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر سعودی عرب اور ایران نے تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی جرات کرلی تو اس سے جہاں ان دونوں ملکوں میں امن و سکون آئیگا وہیں خانہ جنگی کے مارے شامیوں، اہل یمن و عراق اور ساکنانِ افغانستان کو بھی راحت نصیب ہوگی۔ اور واقعی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایران نواز حوثیوں اور سعودی حمائت یافتہ وفاقی حکومت کے درمیان غیر اعلانیہ فائر بندی کی وجہ سے دس سال بعد یمن میں رمضان کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔قحط، بیماری اور مہنگائی کے مارے یمنی عملاً صائم الدھر ہیں لیکن اس بار پانی سے سحروافطار کرنے والے ان فاقہ کشوں کو عسکری سائرن کی اذیت سے وقتی طور پرنجات مل چکی ہے۔ ایران سعودی مفاہمت کی پشت پر چین کی کامیاب سفارتکاری جبکہ شام کے معاملے میں سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی معاملہ فہمی و بردباری برگ و بار لائی ہے۔ موصوف تصادم کے بجائے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ دس برس قبل جرمن وزیرخارجہ سگمر جبرائیل (Sigmar Gabriel)کے توہین آمیز بیان پر سعودی عرب نے جرمنی نے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور سفارتی تعطل ایک سال جاری رہا۔ سفیروں کے تبادلے کے بعد بھی جرمن سعودی تعلقات میں ناخوشگوار کشیدگی برقرار رہی اورر مارچ 2019 میں شہزادہ فرحان سفیر بناکر جرمنی بھیجے گئے جنکی ولادت جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہوئی تھی اور موصوف جرمنی بہت روانی سے بولتے ہیں۔ شہزادہ صاحب نے اپنے شیریں اندازِ گفتگو اور حکمت سے جرمنی اور سعودی عرب کے تعلقات میں آئی سلوٹ کو ہموار کردیا۔ چند ہی ماہ بعد شہزادہ فرحان کو سعودی وزارت خارجہ کا قلمدان سونپ دیا کیا۔ اطلاعات کے مطابق سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سعودی وزیرخارجہ اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ فٰیصل بن فرحان کو انگریزی ادب سے دلچسپی ہے جبکہ انسٹھ سالہ فیصل مقداد انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی ہیں۔ چنانچہ سیاست و سفارت کے علاوہ ان دونوں کے درمیان گفتگو کیلئے باہمی دلچسپی کے کئی دوسرے موضوعات بھی ہیں۔ سعودی وزیرخارجہ کا خیال ہے کہ بات چیت کبھی بے سود نہیں ہوتی اور گفتگو کا ہر دور تعاون کا نیا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ ایران سے صبر آزما بلکہ اعصاب شکن سالوں طویل مذاکرات سعودی شہزادے کی اسی مسقل مزاجی اور پُرامید طرز فکر کا ثمر ہے۔ انھوں نے مفاہمت کے اعلان سے ایک ماہ قبل کہا تھا کہ ایران سے مذاکرات کے چار دور میں قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی لیکن دونوں فریق کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کا عزم بے حد خوش آئند ہیں اور ہم ملاقات کا کوئی بھی ضایع نہیں کرینگے۔ شام کے معاملے میں بظاہر کسی ثالثی کے بغیر دونوں وزارئے خارجہ براہ راست گفتگو کرتے رہے اور خیال ہے کہ جناب مقداد نے اپنے ایرانی دوستوں کو بھی اس بات چیت سے باخبر رکھا۔ شام سے تعلقات بہتر کرنے کی سعودی خواہش نے ایرانیوں پر مثبت اثرات مرتب کئے اور 10مارچ کو تہران و ریاض کے درمیان ہونے والے معاہدے میں شام سعودی مفاہمتی گفتگو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاض دمشق ناچاقی کی بنیادی وجہ شام کی خانہ جنگی اور اس میں ایران کی مبینہ مداخلت ہے ۔ خانہ جنگی کے اسباب و عوامل پر چند سطور سے قارئین کو پسِ منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی دسمبر 2010 میں تیونس سے پھوٹنے والی آزادی کی لہرنے مصر، کوئت، بحرین اور یمن کی طرح شامیوں کو بھی حوصلہ دیا لیکن خفیہ پولیس کی موثر پیش بندیوں کی بناپر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ پندرہ مارچ 2011کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا۔ اور اسکے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ یہ ایک ناقابل معافی جسارت تھی چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ اٹھارہ مارچ کو بعد نمازِ جمعہ ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ پولیس کی فاٰئرنگ سے درجنوں افراد جابحق ہوئے۔ تشدد سے ہنگامے تو کیا رکتے، یہ درعا سے نکل کر سارے ملک میں پھیل گئے اور شام کے پرچم ہاتھوں میں لئے نوجوانوں نے مختلف شہروں کے میدانوں اور چوراہوں پر ڈیرے ڈالدئے۔آزادی کی یہ قومی تحریک جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالا تر تھی۔ کسی شخصیت کیلئے زندہ باد و مردہ باد کی کوئی صدائیں نہ تھی اورنعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتاتھا۔شام کے آمر بشارالاسد کو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے ان سے عزت کے ساتھ ارحل (یعنی تشریف لے جایئے)کی درخواست کی گئی۔ شام کے رائج الوقت نظام میں اختلاف کی سزا موت ہے۔ سوا دوکروڑ نفوس پر مشتمل اِس ملک کو عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہا جاتا ہے۔ جاسوسی کا نظام اسقدر مضبوط و مربوط کہ شائد"دیواروں کے کان" کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے اور ہمارے فیض صاحب کو "اپنے ہی سائے سے گریزاں" ہونے کا عملی مشاہدہ بھی یقیناً شام ہی میں ہوا ہوگا۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں نصف صدی

سعودی شام سفارتی تعلقات امریکہ بہادر پریشان، اسرائیل مشتعل