یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن کے حوالےسے پاکستان میں تعینات روسی سفیر البرٹ پی خوریو کا پریس بریفننگ سے خطاب

اسلام آباد (عدنان حمید) : پاکستان میں روس کے سفارتخانہ کی جناب سے روسی سفیر کی پریس بریفننگ کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف سرکاری و پرائیویٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے نمائندگان نے شرکت کی۔ روسی سفیر البرٹ پی خورو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان دنوں میں ہم یوکرین میں 22-21 فروری 2014 کو غیرآئینی بغاوت کی دس سال کی سالگرہ کی یاد دلانا چاہتے ہیں – “یورومیدان” (Euromaidan) کا عروج قانونی طور پر منتخب صدر مملکت ویکتور یانوکوفیچ کو بے دخل کرنا تھا، جو روس سے دوستانہ تعلقات رکھنے کے حامی تھے- جب کہ مغربی ممالک نے یوکرین کو روس سے دور کرنے کے لئے “یورومیدان” (Euromaidan) کی ترغیب کی تھی– روس کے سفیر کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ میں اس بات کی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت یوکرین کو آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ (CIS) کے تحت اپنی تجارتی واقتصادی ذمہ داریوں کو اور یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن پر معاہدہ سے یکجا کرنے کا مقصد درپیش تھا۔ باہمی طور پر قابل قبول اتفاق پر پہنچکر پرتشدد واقعات سے بچنا ممکن تھا۔ لیکن مغرب نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور انتہاپسند قوم پرست حکام اقتدار پر آنے کی سرگرمی سے معاونت کی- ان کا بتانا تھا کہ ٹھیک 10 سال پہلے قانونی میدان میں صورتحال کو برقرار رکھنے کا موقع تھا۔ 21 فروری 2014 کو یوکرین کے صدر نے ملک میں سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے حزب اختلاف کے رہنماؤں سے معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت قومی یکجہتی کی حکومت کی تشکیل کرنے، آئینی ترمیم منظور کرنے اور اس کے بعد عام انتخابات کرنے کا منصوبہ تھا- اس معاہدے کے ضمانت دار اس وقت جرمنی اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ اور فرانسیسی وزارت خارجہ کے مندوب تھے۔ اس کے باوجود اگلے ہی دن حزب اختلاف نے من مانی طور پر صدر کو استعفیٰ دینے اور اپنی حکومت بنانے کا اعلان کر دیا۔ تاہم آئین کی خلاف بے نقاب بغاوت کی گئی، جب کہ امریکہ اور نام نہاد ضمانت دار ممالک سمیت یورپی یونین نے اسے نظرانداز کیا اور جیسا کہ یہ ابھی واضح ہے فعال حمایت کی- سفیر البرٹ نے مزید کہا کہ کیئف میں بغاوت سے یوکرین کے معاشرے میں گہری تقسیم سامنے آئی اور خانہ جنگی کے لیے بنیاد ڈالی گئی۔ یوکرائنی شدت پسندوں نے اپنی تمام قوتوں کو ملک کے باقی علاقاجات میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی ہدایت کی جس میں تشدد، مقامی آبادی کے حقوق کی خلاف ورزی، روسی زبان پر پابندی لگانے کی اپیل، حزب اختلاف کی جماعتوں اور تنظیموں، ناپسندیدہ میڈیا کی بندش اور نونازی کے پروپیگنڈے کو ہوا دینا شامل ہیں- یوکرین کے کئی علاقاجات کو نئی روس مخالف حکومت کے تابع ہونے کی خواہش نہیں تھی ۔ مثلاً مارچ 2014 میں استصواب رائے کے نتیجے میں کریمیا جزیرہ نما کی آبادی نے وفاق روس کے ساتھ پھر سے انضمام کرنے کے حق میں ووٹ دیا اور مئی میں ڈونیٹسک اور لوگانسک عوامی جمہوریوں کا اعلان کیا گیا جو بعد میں روس میں شامل ہو گئیں۔ یوکرائنی بحران کے آغاز سے ہی، روس نے اسے پرامن، سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی سرگرم ترین کوششیں کی ہیں۔ 12 فروری 2015 کو ہمارے ملک اور دیگر بین الاقوامی ثالثوں کی مدد سے منسک معاہدوں کو عمل میں لانے کے اقدامات کا ایک مجموعہ دستاویز پر دستخط کئے گئے، جس سے مشرقی یوکرین کے تنازعے کے سیاسی حل اور ڈون باس کے خطے کو یوکرین میں دوبارہ انضمام کرنے کا موقع ملا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2202 کے ذریعے متفقہ طور پر اس دستاویز کی منظوری کی- اس کے ساتھ ساتھ یوکرین میں اسلحہ اور مشیروں کو بھیجتے ہوئے مغربی ممالک مشترکہ طور پر 2014 سے 2022 تک یوکرین کو جان بوجھ کر روس کے خلاف اپنے میدان جنگ میں بدل رہے تھے- جیسا کہ صدر روس ولادیمیر پوٹن نے امریکی صحافی تاکر کارلسن سے حال ہی میں بات چیت کرتے ہوئے کہا مغربی ممالک “منسک معاہدوں” سے یوکرین کی عسکریت پسندی میں اضافہ کرنے کے لیے مستفید ہوئے – مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرکے اور اپنی سلامتی کو سیدھا خدشہ سامنے آنے کے تناظر میں روس حصوسی فوجی کرراوائی شروع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کر سکتا تھا۔ روس کے موقف کی درستگی باوقار بین الاقوامی اداراجات سے ثابت ہو گئی ہے۔ 31 جنوری کو اقوام متحدہ کے بین الاقوامی عدالت انصاف نے روس کے خلاف یوکرین کے دعوے پر اپنے حتمی فیصلے میں ہمارے ملک کو دہشت گردی کی “معاون ریاست” سمجھنے اور اسے “جارحانہ ریاست” قرار دینے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے کریمیا میں رہائش پذیر تاتار مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلقہ روس پر الزامات کو بھی مسترد کر دیا۔ میدان جنگ پر کوئی کامیابی حاصل کئے بغیر کیئف حکومت روس کی سرزمین میں واقع شہری تنصیبات اور سماجی سہولیات پر دہشت گردانہ حملے کرتی رہتی ہے جس سے عام شہری جان بحق ہو جاتے ہیں۔ 3 فروری کو، یوکرائنی افواج نے، امریکی راکٹ لانچر کا استعمال کرتے ہوئے، لیسیچانسک نامی شہر پر گولہ باری کی۔ اس حملے میں 28 شہری جاں بحق ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس نے اس جرم کی مذمت کی ہے۔ لیکن مغربی ممالک کے سربراہان میں سے کسی بھی نے ایسا ہی نہیں کیا ہے۔ 15 فروری کو یوکرین کی مسلح افواج نے بیلگوروڈ کے رہائشی محلوں پر حملہ کیا۔ ایک بچے سمیت سات افراد جاں بحق ہو گئے۔ بدتمیزی کا عروج یہ ہوا کہ سال رواں کی جنوری کے آخر میں بیلگوروڈ کے قریب امریکی ساختہ راکٹ کی گولہ باری کے نتیجے میں روس کا ایک آئی ایل 76 طیارے کو مارکر گرایا گیا جس میں 65 یوکرائنی جنگی قیدی تبادلے کے لیے لے جا رہے تھے۔ وہ سبھی اور ان کے ساتھ طیارے کا پورا عملہ بھی جاں بحق ہو گئے- روس نے اس مسئلے کے سیاسی اور سفارتی حل سے کبھی انکار نہیں کر دیا ہے۔ یہ کیئف حکومت ہی اور اس کے صدر زیلنسکی نے 2022 میں روسی قیادت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر پابندی اپنے آپ پر لگانے والے قانون کو منظور کیا۔ عالمی برداری کو دھوکہ دینے کے لیے، مغربی ممالک مسلسل زیلنسکی کے “امن فارمولے” کو فروغ دے رہے ہیں، جو حقیقت کی کوئی عکاسی نہیں کرتا ہ

یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن کے حوالےسے پاکستان میں تعینات روسی سفیر البرٹ پی خوریو کا پریس بریفننگ سے خطاب
یوکرین میں خصوصی فوجی آپریشن کے حوالےسے پاکستان میں تعینات روسی سفیر البرٹ پی خوریو کا پریس بریفننگ سے خطاب