سعودی امریکی تعلقات

سعودی امریکی تعلقات امریکہ(معسود ابدالی) رگِ مینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن تین روزہ دورہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچ گئے۔ اس دوران انھوں نے خلیج تعاونی کونسل (GCC)کے انسدادِ دہشت گردی اجلاس میں بھی شرکت کی۔ واپسی پر امریکی وزیرخارجہ نے دورے کو بہت کامیاب، ملاقاتوں کو دلچسپ ور گفتگو کو انتہائی دوستانہ قراردیا لیکن سیانے کہہ رہے ہیں کہ سعودیوں کا رویہ سردتھا۔ ایک ماہ پہلے قومی سلامتی کیلئے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سولیون بھی سعودی یاترا کرچکے ہیں ادھر کچھ عرصے سے سعودی امریکی تعلقات کی روائتی گرمجوشی ماند ُ پڑتی نظر آرہی ہے۔ شکایات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن چند اہم معاملات کچھ اسطرح ہیں۔ • سعودی عرب نے امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ، چین کی ثالثی میں ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرلئے • یمن میں حوثیوں سے کشیدگی ختم کرنے کا معاملے پر واشنگٹن سے مشورہ نہیں کیا گیا • شام سے تعلقات کی بحالی بھی بالا ہی بالا کرلی گئی اور امریکہ کو اس اہم پیشرفت کی اطلاع ذرائع ابلاغ سے ہوئی • تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے امریکہ اور یورپ کی معیشتوں پر شدید دباو ہے اور سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان المعروف MBS امریکہ سے تعاون کے بجائے پیداوار میں مسلسل کٹوتی کررہے ہیں۔ • سعودی عرب کے چین اور روس سے تعلقات میں گرمجوشی آرہی ہے اور اب ریاض اسلحے کیلئے بھی بیجنگ اور ماسکو سے مول تول کررہا ہے • سعودی عرب چین اور روس باہمی تجارت مقامی سِکّوں یعنی روسی روبل، چینی یووان اورسعودی ریال میں کرنے پر رضامند نظر آرہے ہیں۔ • سعودی عرب، اسرائیلی کمرشل طیاروں کیلئے اپنی فضائی حدود تو کھول دی ہیں، لیکن MBSمتحدہ عرب امارات اور بحرین کی طرح تل ابیب سے سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے تیار نہیں • مغرب میں سعودی، ایران، ترکیہ، روس اور چین تجارتی اتحاد کی بازگشت سنائی دے رہی ہے • سعودی عرب جوہری توانائی کے حصول میں سنجیدہ ہے اور تعاون کیلئے اسکی نظریں بیجنگ کی طرف ہیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ جنوری 2015 میں MBSکے نائب ولی عہد کا عہدہ سنبھالنے کے وقت سے سعودی تیور کا تیکھا پن نمایاں ہے۔ غیر جانبدار سیاسی مبصرین واشنگٹن کے اس تجزئے کو تسلیم نہیں کرتے اور ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدا میں نائب ولی عہد واشنگٹں کا مخلص دوست تھے لیکن انھوں نے اگلی دہائی تک مملکت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا تہییہ کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہی انھوں نے ماہرین کی ٹیمیں بناکر 'جدید سعودی' کی تعمیر کا آغاز کیا اوراپریل 2016 کو رویۃ السعودیہ یا Vision 2030کا اعلان کیا گیا۔ وژن 2030کا کلیدی نکتہ سعودی معیشت میں تنوع ہے۔ وہ خام تیل پر دارومدار کم سے کم کرنا چاہتے ہیں۔۔ اسی کے ساتھ انھوں نے نجی شعبوں کے تعاون و مشارکت سے صحت و تعلیم، بنیادی ڈھانچے (Infrastructure)، تفریح اور سیاحت کے شعبوں کو ترقی دینے کاخیال پیش کیا جس میں حکومت کا سرمایہ، حصہ اور مداخلت کم سے کم ہو۔ منصوبے کے مطابق 2030 تک سعودی عرب کو عرب اور اسلامی دنیا کا قلب، بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز اور تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کا طاقتور اقتصادی سنگم بننا ہے ان اہداف کے حصول کیلئے وہ چینی تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بیجنگ کی توجہ گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی ترقی پر ہے۔ عالمی تنازعات پر بیجنگ دوٹوک اور جاندار موقف اختیار کئے ہوئے ہے اور امریکہ سے جاری ہونے والے قابل اعتراض بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب بھی ترنت دے دیا جاتا ہے لیکن جارحانہ عسکری پیشقدمی سے گریز اسکی سفارتکاری کا بنیادی جزو ہے۔ سعودی عرب نے بھی وژن 2030کی طرف یکسوئی کیلئے علاقائی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ اختیار کرلی اور چین کی ثالثی میں ایران سے مذاکرات شروع ہوئے۔ امریکہ و یورپ کی عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے ایران کی اقتصادی صورتحال بہت اچھی نہیں اور سعودی عرب سے کشیدگی کی بنا پر یمن، شام و لبنان میدانِ جنگ بنے ہوئے ہیں۔ ان تینوں محاذ پر کسی جانب کوئی پیشرفت بھی نہیں ہورہی، چنانچہ ایران اس دلدل سے نکلنا چاہتا ہے۔ چینیوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ چین کا کہنا ہے کہ 'جب دودوست مسکراتے چہروں کیساتھ مذاکرات کی میز پر آگئے تو باقی متنازعہ امور بھی بات چیت کے ذریعےطئے ہوجائینگے'، عرب و عجم کشیدگی کم ہونے کے خوشگوار اثرات ہر جگہ محسوس ہوئے۔ یمن میں بمباری کا خاتمہ اور قیدیوں کے تبادلے سے تناو کم ہوا تو دوسری جانب سعودی عدرب اور شام کے سفارتی تعلقات بھی بحال ہوگئے۔اس معاملے میں امریکہ کا نظر انداز کئے جانے کا شکوہ اس لحاظ سے غیر ضروری ہے کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں لہذا واشنگٹن کیلئے ثالثی ممکن ہی نہیں۔ وژن 2030 کے منصوبوں کی سرمایہ کاری زیر زمین ابلتے سیاہ سونے ہی سے ہو گی، چنانچہ تیل کی قیمتوں میں استحکام MBSکی اولین ترجیحِ ہے۔ ساری دنیا میں تیل کی پیداوار کا ایک تہائی امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماضی میں روس خود کو تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کا مسابقت کار سمجھتا تھا اسلئے پیداوار کے معاملے میں روس کی ترجیحات اوپیک سے مختلف تھیں۔ یوکرین کی جنگ اور یورپ کی جانب سے روسی تیل کے بائیکاٹ نے ماسکو کو اوپیک کا اتحادی بنادیا ہے جسکی وجہ سے بازار پر سعودی عرب کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے۔ جوہری پروگرام سے دلچسپی کی وجہ بھی یہی ہے کہ سعودی عرب توانائی کی ضرورت کیلئے تیل پر انحصار کم سے کم کرکے متبادل ذرایع تلاش کررہا ہے جس میں جوہری توانائی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکہ اور سعودی عررب کے درمیان شدید کشیدگی کا آغاز اکتوبر 2018 میں ہوا جب ممتاز سعودی صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جناب جمال خاشقجی کو انقرہ کے سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے انکی لاش ٹھکانے لگادی گئی۔مرحوم اپنے دستاویزات کی تصدیق کیلئے قونص

سعودی امریکی تعلقات