آزادی اظہار رائے کا دہرا معیار ۔۔ چشم کشا انکشاف

Facebook فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ آزادی اظہار پر یقین رکھنے کے ساتھ معاشرے (Community)کی توقیر و تحفظ کو بے حد اہمیت دیتا ہے۔ 'قابل اعتراض مواد پر انتباہی پیغامات ملتے ہیں اور بسا اوقات اکاونٹ منجمد کردئے جاتے ہیں۔ انفرادی پوسٹ کیساتھ صفحات اور نیٹ ورکس کی 'غیر پسندیدہ'سرگرمیوں کو فیس بک کی مالک میٹا کمپنی Meta مربوط غیر مستند طرز عمل یا Coordinated Inauthentic Behavior(CIB)کہتی ہے جنکی نگرانی اور سدباب کیلئے مختلف جغرافیائی اکائیوں میں CIBکمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ اس سارے بندوبست کا مقصد سنسر اور پابندیوں کو مربوط و منصفانہ بنانا ہے یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے لیکن آج واشنگٹن پوسٹ کے ٹیکنالوجی ایڈیٹر Joseph Menn (ٹویٹر @josephmenn) اور بھارتی بیورو کے سربراہ Gerry Shih (ٹویٹر @gerryshih) کاایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے جسکے مطابق تقریبا تین سال قبل فیس بک کے نقیبوں (propaganda hunters) نے سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ کے ایک بڑے آپریشن کا انکشاف کیا۔ نقیبوں نے بتایا کہ سیکڑوں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے کشمیر کے شورش زدہ سرحدی علاقے میں بھارتی عسکری کاروائی کی تعریف کرتے ہوئے کشمیری صحافیوں پر علیحدگی پسندی اور غداری کا الزام لگایا گیا تھا۔ چھان بین پر پتہ چلا کہ یہ نیٹ ورک بھارتی فوج کی چنار کور کے ذریعے چلایا جاتا تھا۔ جب CIB یونٹ کے امریکہ میں مقیم سپروائزر نے فیس بک ہندوستان کے ذمہ داروں کو چنار نیٹ ورک کے صفحات حذف کرنے کیe سفارش کی تو نئی دہلی کے دفتر نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔فیس بک کے ہندوستانی اہلکاروں نے متنبہ کیا کہ کسی بھی کاروائی سے پہلے مقامی وکلا سے مشورہ ضروری ہے۔ ہندوستانی افسران کا کہنا تھا کہ خودمختار ملک کو اسکے زیر کنٹرول علاقوں میں کارروائیوں پر تنقید کا نشانہ بنانا خطرناک ہوسکتا ہے اور غداری کے الزام میں گرفتاری بھی خارج از امکان نہیں۔ ان خدشات کی بناپر CIBیونٹ ایک سال تک خاموش رہا اور اس عرصے میں بھارتی فوج کے یونٹ نے غلط معلومات کی تشہیر جاری رکھی جس سے کشمیری صحافی خطرے میں پڑ گئے۔سال بعد ڈیڈ لاک اس وقت ختم ہوا جب فیس بک کے اعلی حکام نے مداخلت کی اور جعلی اکاؤنٹس حذف کردئے گئے۔ کشمیر پروجیکٹ پر کام کرنے والے ایک ملازم نے کہا کہ چنار کور نے فیس بک کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرضی شخصیات کو خفیہ طور پر ایک بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ (پالیسی کی صریح خلاف ورزی کے باوجود) چنار کور کی حمائت نے CIBکو تقریبا توڑ دیا اور ماہرین کا ایک بڑا گروپ CIB چھوڑنے پر مجبور ہوگیا۔ جوزف اور جیری رقمطراز ہیں' کشمیر کا معاملہ اس بات کی صرف ایک مثال ہے کہ کس طرح فیس بک وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے دباؤ پر ہندوستان میں اپنی پالیسیوں کو پس پشت ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔ جب بھی بی جے پی کے سیاست دانوں یا ان کے حلیفوں کے ذریعہ نقصان دہ مواد پھیلایا گیا، پلیٹ فارم نے کارروائی سے گریزکیا' ہندوستان کیلئے فیس بک کے نرم گوشے کی وجہ بیان کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں ہند نژاد صارفین کی تعداد اور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ہندوستانی افسران کے اثرورسوخ کےحوالے سے ہندوستان ایک مثالی منڈی ہے۔ ہندوستان انگریزی بولنے والی ٹیکنالوجی سے واقف جمہوریت ہے جسے بائیڈن انتظامیہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ہندوستان میں فیس بک صارفین کی تعداد پوری امریکی آبادی سے زیادہ ہے۔ ہندوستان ، ٹویٹر کے لئے بھی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔اسی بنا پر CIBپالیسیوں کی صریح خلاف ورزی کرنے والے مواد پر ہندوستان سے خصوصی سلوک کیا جاتا ہے ۔ بھارت میں حکومت نواز مواد کو اعتدال پسند بنانے کے حوالے سے فیس بک کا محتاط رویہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ نقب زن (ہیکرز) اور پراپیگنڈا کرنے والوں کی بیخ کنی امریکہ سے کی جاتی ہے۔ لیکن انکے ہندوستانی ہم منصبوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھیں سیاسی نظریات اور یا حکومتی آشیرواد کی بناپر بھرتی کیا گیا ہے اور یہ سب نظریاتی طور پر بی جے پی کے حلیف ہیں۔ رپورٹ میں فیس بک کے 20 سے زیادہ موجودہ اور سابق ملازمین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کمپنی کے افسران بی جے پی سے وابستہ، نفرت پھیلانے والے اکاؤنٹس کو سزا دینے سے کتراتے ہیں۔ انٹرویوز اور دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ فیس بک کے مقامی عہدیدار ہندو قوم پرست رہنماؤں کی ویڈیوز اور پوسٹس کو ہٹانے میں ناکام رہے، حالانکہ انہوں نے کھلے عام ہندوستانی مسلمانوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ حوالہ: واشنگٹن پوسٹ، 26 ستمبر 2023

آزادی اظہار رائے کا دہرا معیار ۔۔ چشم کشا انکشاف