تحریر: ظفر اقبال ظفرلاہور پنجاب پاکستان
حکومت پاکستان کی طرف سے حسن کارکردگی کا ایوارڈ حاصل کرنے والے ناصر ادیب صاحب سے ان کے گھر میں ملاقات پر انٹریو وکرنے کا موقع ملا پہلی ملاقاتوں میں ان کے حالات زندگی کے چند باب سننے کو ملے تو مجھ میں یہ شوق پیدا ہوا کہ ان کا تفصیلی انٹریو کیا جائے تاکہ مجھ جیسے گم نام لکھاریوں کے لیے ان کی زندگی کے حالات و اقعات سے سیکھ کر عمل کرکے کامیابی تک پہنچنے کے راستے روشن ہوسکیں میں نے ان سے وقت مانگا تو یہ اُس وقت لندن میں تھے اور مجھے انہوں نے واپسی پر ملاقات کا اظہار کیا جب یہ واپس پاکستان آئے تو مجھے گھر آنے کی دعوت دی میں ان کے سمجھائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا اور گھر کے قریب پہنچ کر فون کیا کہ میں فلاں مقام پر کھڑا ہوں مجھے ان کی بزرگی اور بڑے پن نے اُس وقت حیرت میں ڈال دیا جب وہ پاؤں میں چپلی پہنے مجھے رسیو کرنے کے لیے میری طرف آتے رستے میں کھڑے فون پر راہنمائی کر رہے تھے کہ آپ آگے آ جائیں میں آپ کو گھر لے جاؤں گا میں جب ان کے پاس پہنچا تو گلے مل کر گھر لے آئے اُس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ بڑا وہ آدمی ہوتا ہے جو کسی کو چھوٹا یا کمتر ہونے کا احساس نا ہونے دے۔ گھر پہنچے تو مہمان نوازی کے عمل کے دروان باتیں شروع ہوئیں میں نے شروع سے شروع کرنے کی درخواست کی جس کا آغاز انہوں نے اپنے آبائی مقام سرگودھاکے گاؤں پھلراں وال میں عید کے روزہونے والی اپنی پیدائش سے شروع کیاان کی ماں بتاتی ہیں کہ یہ واحد زمضان تھا جس میں ان کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی نا کوئی روزہ قضا ہوا عبادتوں کی تکمیل کرتی ماں نے ان کو جنم دینے کے بعد ان کا نام محمد خان رکھا بڑے بھائی نے عید کے دن پیدا ہونے کی نسبت سے عید محمد رکھا اور والد نے محمد نواز رکھا جو طے ہو گیاجبکہ ناصر ادیب نام ان کے مرشد نے رکھا تھا جو زمانے کی زبان پر چڑھ گیا ان پڑھ خاندان کے اس بچے نے میڑک میں فسٹ پوزیشن لی ان کا نام سکول کے ریکارڈ میں آج بھی سب سے اوپر درج ہے جوانی کے دور میں ان کو مشہور ہونے کا بہت شوق تھا ان وقتوں میں پیسوں کے سکے زیراستعمال ہوا کرتے تھے کبھی بڑا نوٹ نہیں دیکھا تھا اور اس کے برعکس ان کے گاؤں کا چوہدری جو بہت مالدار تھا بے شمار دولت مند تھا اس کا انتقال ہوا تو ناصر ادیب اپنے والد سے پوچھتے ہیں کہ ابا جی چوہدری کا انتقال ہوا ہے تو اس کی اخبار میں خبر کیوں نہیں آئی؟ جس پر ان کے والد نے کہا کہ اخبار میں خبر اُن لوگوں کی آتی ہے جو دنیا میں کوئی منفرد کام کرتے ہیں اس بات نے ان کے اندر یہ ہمت بنا دی کہ مشہور ہونے کے لیے دولت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا بندے میں کوئی ایسا فن ہونا چاہیے جو اسے نمایاں کرکے دنیا میں مشہور کر دے یہاں ایک اور واقعہ سناتا چلوں کہ جنون شہرت میں ان کوعلم ہواکہ منفرد کام میں ایک کام نشان حیدر کا ملنا بھی ہوتا ہے اور وہ فوج میں بھرتی ہونے پہنچ گئے ان کے ساتھ جو دوسرا بندہ فوج میں بھرتی ہوا تھا وہ جنرل پرویز مشرف تھے ٹرینگ کے مراحل میں انہوں نے ایک فوجی سے پوچھا کہ نشان حیدر کیسے ملتاہے جس پر اس نے بتا یا کہ نشان حیدر فوجی کو شہادت کے بعد ملتا ہے۔یہ سنتے ہی خود میں ڈوبے حیران ہوتے ہوئے کہنے لگے یہ کیسی شہرت ہے جسے میں خود ہی نہیں دیکھ سکتا۔ہاہاہاہا۔اور وہ فوج کی نوکری چھوڑ کر فرار ہو گئے جس کی وجہ سے ان پر پرچہ بھی درج ہوا جو خاتون بیگم الماس دولتانہ نے خارج کروا کر ان کی جان چھڑوائی مگر اس عمل پر ان کے والد نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو گھر سے نکال دیا بی اے کی تعلیم انہوں نے خود محنت مزدوری کر کے مکمل کی ساتھ میں وہ اپنی زات پر غور کرتے کہ میرے اندر ایسا کیا ہے جو اگر نکھر جائے تو ایک چمکدار ہیرا بن سکتا ہے اسی سوچ میں گم تھے کہ ان کو سمجھ آئی مجھے اللہ کریم بہت منفرد خیال اور سوچیں عطا کرتا ہے کیوں نا میں ان کو لکھنا شروع کروں اور پھر ترتیب دوں لہذا انہوں نے ایک کہانی لکھی جس کے مکمل ہونے کے بعد ان کو اپنے اس عطا کردہ کمال کا احساس ہوا مگر یہ کافی نہیں تھا اس کا دنیا کے سامنے آنا ضروری تھاکہانی کو فلم کی شکل ملتی تو یہ اپنا مقام بنا سکتی تھی مزید لکھتے چلے گئے انہوں نے افسانے لکھنے شروع کئے جو اُس وقت کے شہرہ آفاق لکھاری آغا شورش کشمیری کے چٹان پرنٹنگ پریس میں بے حد پسندکرتے ہوئے شائع ہوئے اور اس کو پڑھ کر آغا شورش کشمیری صاحب نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو ایک بہترین آغاز تھا سرگودھا کے ایک رسالے میں بھی لکھتے رہے جس کے ان کو ہفتے کے پانچ روپے ملتے تھے مگر یہ چاہتے تھے کہ ہر آدمی تک ان کا کام پہنچے اور اس کی ایک ہی شکل تھی کہ فلم لکھی جائے اس ارادے کے پیش نظر 1967میں لاہور ایورنیو سٹوڈیو آ گئے جہان انہوں نے رحمان ورما صاحب کے ساتھ کام کیا جو بنا معاوضے کے خالی چائے پانی سے اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے انہوں نے ناصر ادیب کو اقبال کاشمیری سے ملوایا جو اُس وقت کے بہترین پرڈوسر ڈائریکٹرتھے اُ ن کو اپنی کہانی سنانی شروع کی جسے آدھا سننے کے بعد اقبال کشمیری کہنے لگے کہ کہانی تو ختم ہو گی ہے جس پر ناصر ادیب نے کہا سر کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے کافی بحث ہوئی کہ جہاں سے پنجابی فلم ختم ہوتی ہے وہاں سے تم نے شروع کردی ولن پارٹی آئی انہوں نے ہیرو کی فیملی کو مارا پھر ہیرو نے بدلا لیا کہانی تو ختم ہو گئی ہے تو ناصر ادیب نے کہا آپ اس سے آگے سنیں گے تو پتا چلے گا یہ سنتے ہی اقبال کاشمیری صاحب نے ایک بڑی سی گالی نکالی اور کہا دفع ہو جاؤ میرے آفس سے تمہیں کس نے کہہ دیا تم رائٹر ہویہ ڈانٹ سننے کے بعد ناصر ایب ایورنیو سٹوڈیو کے گیٹ سے باہر نکل رہے تھے تو ان کی ایک آدمی کے ساتھ ٹکر ہوئی دیکھا تو وہ لجینڈ اداکار محمد علی صاحب تھے ان کے پیچھے ان کی بیگم زیبا اور ان کے پیچھے ایک کالے چشمے والا آدمی تھاتو محمد علی صاحب نے بڑی محبت سے پوچھا کیا ہوا ہے تو ناصر ادیب کے کہا کچھ نہیں۔تو محمد علی صاحب نے کہا اگر کچھ نہیں ہوا تو تم رو کیوں رہے ہوناصر ادیب کو اُس وقت پتا چلا کہ میں رو رہا ہوں محمد علی صاحب ان کو اپنے کمرے میں ل