معروف پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار کی زندگی کے پہلو جومجھ پر عیاں ہوئے

عارف لوہار کی زندگانی ظفر اقبال ظفر کی زبانی مصنف ظفر اقبال ظفر کی کتاب ظفریات کا ایک دلکش مضمون۔ میرا ہمزادعار ف لوہار اردو پنجابی گرمکھی انگلش میں اندرون بیرون ممالک شائع ہوا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ڈھیروں دعائیں ???? ایک دن ٹی وی پر پنجاب کے معروف فوک گلوکار عارف لوہار کا گیت چل رہا تھا کہ میری ماں عارف لوہار کو دیکھ سن کر کہنے لگی یہ میرا بھائی ہے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ماں بولی پنجابی اور لوہار برادری کا رشتہ اپنے ہونے کا اعلان کر رہا ہے میری ماں عارف لوہار کی فین ہے مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی اور میں نے نیت کر لی کہ عارف لوہار سے اپنی ماں کی ملاقات کروا کے اس خوشی کو رُوح سے محسوس کروں گامجھے نہیں پتا تھا کہ یہ خواہش قدرت کے انکشافات کی راہ ثابت ہوگی جو طلب تڑپ چاہت عزت محبت ادب جیسی کیفیات کا روپ دھارتی چلی جائے گئی میڈیا کی ایک خاتون جو ان کے انٹرویوز کر چکی تھی ان سے عارف بھائی کا نمبر مانگا تو انہوں نے عارف بھائی سے میراتزکرہ کرکے نمبر کی اجازت لے کر مجھے سینڈ کر دیا میں نے وائس مسیج کیا کہ مجھے ماں بولی پنجابی کے فروغ پر آپ کا انٹرویوکرنا ہے جو انڈین پنجاب اور پاکستانی پرنٹ اینڈ الیکٹرونک میڈ یا پر آئے گاجواب میں عارف بھائی کا وائس میسج بھی آ گیا کہ آپ میرے گھر پر چار بجے تشریف لے آئیں تاکہ میں اپنے بھائی کو انٹرویو دے سکوں میں عارف بھائی کے پاس پہنچا خوشگوار ملاقات میں خوشبودار باتیں اپنائیت کا وہ احساس ملا کہ رُوح معطر ہو گئی ہم مزاج انسان راحت رُوح ہوتا ہے ایسے لوگوں کی زہنی قلبی فنی تخلیقی زینت و آرائش قدرت اپنے غیر مرئی ہاتھوں سے کرتی ہے میں سوچتا تھا کہ عارف بھائی کسی بھی کلام کو اپنی گائیکی میں آب حیات کیسے پلا لیتے ہیں تو اس کا ایک راز یوں معلوم ہوا کہ آج تک انہوں نے جتنے بھی کلام گائے ہیں ان میں لفظ شراب نہیں ہے یعنی غیر شرعی غیر اخلاقی جذبوں کی ترجمانی کرنے والے الفاظ سے پاک کلام ہی امر ہونے کی وجہ ہوتے ہیں اسی طرح نعت حمد سے پیسے نہیں لیتے۔انٹرویو ریکارڈ ہوا جو شاہ مکھی اور گرمکھی زبان میں انڈیا پاکستان میں شائع ہوا میں عارف بھائی کی قدردانی اور مہربانی کے سامنے اپنا دامن بڑا کرنے کی کوشش میں لگا رہا واٹس اپ پر وائس مسیج میں ان کی قدر عزت محبت پرمبنی خوشبودار باتوں کے جواب میں کئی بار برابری کے لفظ تلاش کرنے میں ناکام ہو کر خاموشی میں جکڑ جاتا جیسے بندہ سپیچ لس ہو جاتا ہے کچھ عرصہ بعد میرے ایک دوست عرفان احمدکی وجہ سے مجھے غلاف کعبہ کا ٹکڑا نصیب ہوا میں نے اور کی فرمائش کی کہ مجھے عارف بھائی کو یہ مقدس تحفہ دینا ہے قدرت نے اس کا انتظام بھی کروا دیا تو میں نے عارف بھائی کواس مقدس تحفے کے بارے میں بتایا جس کا سنتے ہی ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی انتہائی خوشی کے عالم میں شکر خداوندی سے لبریز جواب ملا ہم ملاقات کا وقت بناتے رہے اور وقت ہمیں ایک دُکھ کی گھڑی سے ملانے جا رہا تھا کہ ستائیس رمضان المبارک کو ہارٹ اٹیک نے ان کی شریک حیات کو ان سے چھین کر خدا کے حوالے کردیا رُوح کے آنگن میں سوگ کا سماں اندرونی جہاں کو ویران کر گیا میں قل کے ختم پر تعزیت کے لیے حاضر ہوافاتحہ پڑھ کر افطاری کے لیے ان کے سامنے بیٹھا تھا چہرے سے ماسک اتارا تو مجھے دیکھتے ہی دونوں ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا کر کہنے لگے دیکھوبھائی قدرت نے کیا قربانی لے لی ہے میں نے بھی آسمان کی طرف ہاتھوں کا اشارہ کرتے ہوئے خدا کے حکم کی وضاحت کی مجھے سامنے سے بلوا کر اپنے پاس بیٹھا لیا کہنے لگے تمہار ے غلاف کعبہ والے تحفے کا میں نے ان سے تزکرہ کیا تھا اُس عورت نے میرے ساتھ سولہ سال اس طرح گزارے تھے جیسے کوئی عبادت میں جی رہا ہومیں نے کہا بھائی ان کے پردے سے شرم و حیا کا پتا چلتا ہے کہ انہیں کسی نا محرم نے آج تک نہیں دیکھا۔ کہنے لگے وہ میری شرم و حیا کا خدا کی طرف سے انعام تھی میری پاکیزگی کا ظاہری نمونہ تھی اس نے سارا جہاں میری ہی آنکھوں سے دیکھا تھا اپنی زندگی میں ہی بچوں کو کہا کرتی تھی تمہارے باپ کے اندر مجھ سے زیادہ اچھی ماں چھپی ہے مگر مجھے کیا پتا تھا کہ مجھے اُ س کے بعد اُس کو اپنے اندر زندہ رکھ کربچوں کے ساتھ جینا ہوگا اُس کا مقام اہمیت میرے وجود میں اس طرح بس گیا ہے کہ میں اُس کے بعد بھی اُس کی جگہ کسی اور عورت کو دینے کے لیے خود کو رضامند نہیں کر پاؤں گا۔جبکہ عارف بھائی کے والد حاجی عالم لوہار نے چار شادیاں کی تھیں بیویوں کو ایک جیسے لباس اور زیور پہناتے تھے جن میں ایک ماں عارف بھائی کو بہت مارا کرتی تھی ہوش سنبھانے پر معلوم ہوا کہ اس ماں نے انہیں اپنے پیٹ سے جنم دیا ہے۔ عارف بھائی چاہتے تووالد کی رُوح سے اجازت لے کر دوسری شادی کر سکتے تھے مگر انہوں نے خود کے ساتھ بچوں میں بھی اُس عورت کے پیار اور مقام میں کسی کو شریک کرنا گوارہ نہیں سمجھا۔عارف بھائی کے آنسو میری آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے میرے چہرے کا وضو کروا رہے تھے اُن کے آنسو بھی اُن کے دل میں ٹپک رہے تھے مگر کمال کا ضبط اور صبر جس نے اپنے بچوں اور چاہنے والوں کو ایک کمزور باپ کا سامنا نہیں کروایا۔جو خود کو نظر انداز کر تے ہیں ان کے اجر و انعام کی زمہ داری قدرت اُٹھا لیتی ہے اکثر لوگ انسانوں کو جسمانی حالت سے ملتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسانی جسموں میں بسنے والی رُوحوں سے ملاقات کرتے ہیں عظیم رُوحوں کی عظمتوں کا اندازہ جسم کے طے شدہ اس مزاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبوں پر شکوہ شکایت نہیں رکھتے ہر مشکل پر خاموش اور ہر مصیبت پر شکر کے عادی ہوتے ہیں یہ ایسی نایاب لذت ہے کہ بڑے سے بڑے نشے اور حسین سے حسین خدوخال میں نہیں ملتی ایسے لوگوں کی آنکھوں کا نہ نور خشک ہوتا ہے نہ ہونٹوں کا تبسم دم توڑتا ہے عشاء کی نماز کا وقت ہو رہا تھا لوگ فاتحہ پڑھ پڑھ کر رخصت ہوتے جا رہے تھے اور مجھے گھر میں عارف بھائی کے بچوں کی فکر ستانے لگی ہجوم مدھم ہوا تو میں نے کہا بھابی کی قبر پر لے چلیں وہاں کلام پاک پڑھ کر آپ بچوں کے پاس چلے جائیں کہ آج رات ان کو ماں کے بغیر سونا ہے مگر وہ رات نیند کی

معروف پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار کی زندگی کے پہلو جومجھ پر عیاں ہوئے
معروف پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار کی زندگی کے پہلو جومجھ پر عیاں ہوئے
معروف پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار کی زندگی کے پہلو جومجھ پر عیاں ہوئے
معروف پاکستانی فوک گلوکار عارف لوہار کی زندگی کے پہلو جومجھ پر عیاں ہوئے