فلسطین،امریکہ اور اسرائیل

معسود ابدالی امریکہ مقتدرہ فلسطین کا زوال، اسرائیل مخالفین کا کمال و اقبال مصالحت کیلئے قظر، ترکیہ اور مصر کی کوششیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی برائے اندرونی سلامتی ، تحفظِ بیت (عبرانی تلفظ شین بیت) المعروف شاباک کے سربراہ رونن بار (Ronen Bar)گزشتہ ہفتے خصوصی دورے پر امریکہ تشریف لائے۔ یکم جون کو واشنگٹن میں سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس اور وزارت خارجہ کے اعلی افسران سے طویل ملاقاتوں کے کئی طویل دور چلے۔ اسی دوران اسرائیل کے وزیربرائے تزویراتی (strategic) امور رون ڈرمر اور مشیر قومی سلامتی ذکی حنافی( Tzachi Hanegbi) ) بھی امریکی دارالحکومت میں موجود تھے۔ ان دونوں حضرات نے امریکی صدر کے مشیرِ قومی سلامتی جیک سولیون سے ملاقات کی۔ سرکاری اعلامئے کے مطابق ان ملاقاتوں میں ایرانی جوہری پروگرام پر گفتگو کی گئی۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ تہران کسی بھی وقت جوہری دھماکہ کرسکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے عائد اقتصادی پابندیاں اور حجاب کے معاملے پر اٹھنے بلکہ اٹھائی جانیوالی شورش ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ جوہری پروگرام کیخلاف اب تک کوئی کاروائی فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں ہوئی اور 'ملا' اپنے ہدف اور خواب یعنی جوہری اسلامی ایران کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یہ تو تھا سرکاری اعلامیوں کا خلاصہ لیکن، اسرائیل کے تینوں بڑے اخبار یعنی ٹائمز آف اسرائیل ، یروشلم پوسٹ اور الارض (Haaretz) کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کا اصل مقصد محمود عباس کی فلسطین پر کمزور بلکہ تحلیل ہوتی گرفت سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ ہر گزرتے دن کیساتھ مقتدرہ فلسطین، اہلِ فلسطین کا اعتماد کھوتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی کے باجود، مقتدرہ قوتِ نافذہ سے محروم اور اخوانی فکر کی حامل حماس کے اثرات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔ السلطہ الوطنيہ الفلسطينیہ یا PNAالمعرف PAکا قیام معاہدہ اوسلو کا نتیجہ ہے۔سلطہ سے مراد ریاست ہے لیکن عملاً یہ ایک انتظامی اختیار ہے اسلئے ہم نے اسے Palestinian Authority یا مقتدرہ فلسطین کہا ہے۔اس موضوع ہر گفتگو سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئے علاقے کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر فلسطین کی تاریخ کئی ہزار پرانی ہے جب حضرت ابراہیمؑ یہاں تشریف لائے اور اسکے بعد انکے جلیل القدر پوتے حضرت اسحقٰؑ کی پشت سے بنی اسرائیل نے جنم لیا۔ اللہ نے اس بابرکت سرزمین کو مومنوں کیلئے شفیق اور اپنے باغیوں کیلئے شمشیر ِنے بے نیام باشاہوں اور عظیم الشان پیغمبروں سے نوازاتھا۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں چنانچہ ہم اپنی آج کی گفتگوکو علاقے کی حالیہ خون آشام و نامراد تاریخ تک محدود رکھیں گے۔ اس سے پہلے بھی ایک نشست میں ہم یہ نوحہ پڑھ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے 29 ستمبر 1947فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے۔ جسکے بعد دوقومی نظرئے کے مطابق اس ارض، مقدس کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا گیا اور تقسیم اُسی 'منصفانہ' اصولوں پر ہوئی جسےایک ماہ پہلے تقسیم ہندکے وقت اختیار کیا گیا تھا۔یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو سرزمینِ فلسطین کا 56 فیصد اور فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی 42 فیصد زمین نصیب ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ تقسیم کے ساتھ ہی برطانوی فوج کی سرپرستی میں دہشت گردوں نے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، حتیٰ کہ 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی۔ تقسیم فلسطین معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ نہتے فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ متعصب عسکری تجزیہ نگاروں نے سنگدلانہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس مزاحمت کاہدف تحفظِ قُدس سے زیادہ حصولِ شہادت تھا۔ اسی کیساتھ ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ مسلح دہشت گردوں نے پیشقدمی جاری رکھی اور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا ۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سےمجموعی طور پر 2 کروڑ مربع میٹر اراضی چھین لی گئی۔ جون 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنک (عبرانی ملحمت ستہ) فلسطینیوں کی کم نصیبیوں کا ایک اور سنگ میل ثابت ہوئی جب دریائے اردن کا مغربی کنارہ، مسجد الاقصیٰ سمیت سارا بیت المقدس، ہضبۃ الجولان (Golan Heights) اور صحرائے سینائی کا بڑا حصہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔چھ سال بعد 1973 کی 19 روزہ جنگ رمضان نے جسے اسرائیل جہادِ یوم کپر کہتے ہیں، مزید عرب علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور ساتھ ہی عربوں کے حوصلے بھی جواب دے گئے۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قبضے کو قانونی ٰحیثیت دینے کیلئے مذاکرات کا ڈول ڈالاگیا۔ اس تنازعے کے بنیادی فریق اسرائیل، تنظیم آزادی فلسطین یا PLO، مصر، شام اور اردن ہیں۔ شام نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کردیا اور شامی اب تک اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔ پی ایل او، مصر اور اردن امریکہ کی کوششوں سے امن مذاکرات پر تیار ہوگئے جسے Land for Peaceفارمولے کا نام دیا گیا۔۔اسوقت ڈیموکریٹک پارٹی کے بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ انکے وزیرخارجہ وارن کرسٹوفر Warren Christopherنے پی ایل اور کے سربراہ یاسر عرفات سے تیونس میں کئی ملاقاتیں کیں اسی دوران ممتاز امریکی سفارتکار ہنری کسنجر نے بھی اہم کردارادا کیا اس سلسلے میں پہلے باقاعدہ مذاکرات 30اکتوبر 1991 کو اسپین کے دارالحکومت م

فلسطین،امریکہ اور اسرائیل