ری علمی چشمے، سرکاری اسکول اور تعلیم فروش دُوکانیں

تعلیم سے وابستہ مفت سرکاری اور تعلیم فروش مراکز پر مبنی اصلاح آموز تحریر تحریر: ظفر اقبال ظفر کسی بھی قوم میں علمی انقلاب کے بغیرملکی ترقی ممکن نہیں آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کا راز دیکھیں تو علم ہوگا کہ انہوں نے فروغ تعلیم کے لیے عام بندے کے لیے کس قدر آسانیاں پیدا کیں انہی آسانیوں نے عام بندے کو خاص بندے بننے میں مدد دی اور پھر انہی لوگوں نے عوامی اور ملکی وسائل میں چار چاند لگا دئیے تعلیم کے دورُخ ہیں ایک دینی اوردوسرا دنیاوی جبکہ دنیاوی تعلیم دولت کمانا سیکھاتی ہے مگر دینی تعلیم دنیا و آخرت میں انسان کو خود ایک دولت بننا سکھاتی ہے جس میں عمل کی روح ماند چراغ احساس کی روشنی سے انسانیت کے زہنی اندھیرے مٹاتی ہے اور دوسرا دنیاوی تعلیم جس میں انسان اپنے مقصدنوکری تک پہنچنے کے لیے ہر جائز ناجائز حد سے گزرنے سے بھی گزیز نہیں کرتا وجہ یہ ہے دنیاوی تعلیم کو اسکول مالکان بطور کاروبار فروخت کر تے ہیں جہاں تعلیم خودغرض لوگوں کا دھندہ ہو وہاں مہنگی سہولیات میں سستے انسان بستے ہیں۔ملک میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو تعلیم مہیا کرناریاست کا سب سے اہم فریضہ ہے اور ہماری ریاستی کوتاہیوں کی وجہ سے تعلیم کاروبار کے طور پر کھل کر بازار میں نیلام عام ہوتی ہے اور ریاست علم کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدہ اور بے فکر ہے کہ وہ ایک ہی تعلیمی نصاب لاگو نہیں کروا سکی جس کی وجہ سے ہر تعلیم بیچنے والی دوکان پر ان کی اپنی ایجاد کردہ پیکنگ نمائش کے لیے رکھی جاتی ہے اور اندر وہی اے بی سی ایک دو تین الف ب پ والا علم میک اپ کرکے رکھا ہوتا ہے۔ اگر آپ تاریخ ساز شخصیات جن میں بانی پاکستان محمد علی جناح علامہ اقبال ؒ لیاقت علی خان سرسید احمد خان جیسے لیڈروں کی ابتدائی تعلیم کے حوالے سے تاریخی کتب کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ سارے ہیروزٹاٹ پر بیٹھ کر تختی سلیٹ تختہ سیاہ والے سرکاری اسکول سے ہی ابھر کر تعمیر دنیا میں تاریخ رقم کر گے ہیں کسی بھی ملکی اداروں کے اعلی عہدوں پر پہنچے انسانوں کی تعلیمی بنیاد کے بارے میں جائیں تو علم ہوتاہے کہ وہ کسی نا کسی سرکاری سکول سے ہی اوپر آئے ہوتے ہیں اور جب صوبے یا ملکی سطح پر سالانہ تعلیمی امتحان میں اؤل پوزیشن پر آنے والے طلباء کے بیک گرونڈ کے بارے میں دیکھیں تو وہ کسی گاؤں دیہات کے غریب محنت کش کے بچے ہوتے ہیں کیا یہ مہنگی تعلیم بیچنے والے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ نہیں؟آج بھی سرکاری تعلیمی ادارے بے شمار خامیوں کے باوجود قابل فخر عملوں سے بھرے پڑے ہیں مگر بے شمار اصلاحات کے منتظر بھی ہیں سرکاری اسکول کے استاد آسمانی تحفہ علم کی قیمت اس طرح وصول نہیں کرتے تھے جس طرح آج کے پرائیوٹ تعلیمی ادارے منصوبہ بندی سے کرتے ہیں جس میں ٹیچرز کو کم تنخواہ دینے اور والدین سے زیادہ فیس لینے جیسے حربے بزنس کی کامیابی سمجھے جاتے ہیں۔سرکاری اسکول میں بھی نااہل لوگ ملک کے مستقبل کو تعلیم کے نام پر برباد کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں مگر وہاں اچھی بات یہ ہے کہ ان کی گرفت کے لیے قانون بھی موجودہ ہے اور اس قانون کو پرائیویٹ اسکول کے غیر قانونی ظلموں سے متاثر والدین کو آسان کاروائی کروانے کے متعلق آگاہی بھی دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی فہرست میں پاکستان سب سے اوپر ہے اس کی وجہ سالوں سال ہوش روبا مہنگائی اور بے روزگاری دوسرا پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں مہنگی تعلیم جو ہر نچلی سطح کے انسان کے بس کا روگ نہیں جہاں ایک دفعہ بچہ داخل ہو گیا تو پھرداخلہ فیس ماہانہ فیس یونیفارم کتابوں کاپیوں کے خرچے کے علاوہ مینا بازار سلف پارٹی ون ڈش پارٹی ایونٹ فنڈ بچوں کے ایک بار استعمال ہونے والے لباس پر خرچہ بچے اسکول کے لیے پودے خرید کر آئیں جیسے کئی غرض مندانہ جوازوالدین اور بچوں پر مسلط کر دئیے جاتے ہیں اوراسکول انتظامیہ والدین کو قائل کرنے کے لیے علمی اسلحے سے لیس ہو کر دلیلوں کی فائزنگ سے زہنوں کو اس طرح زخمی کرتی ہے کہ غریب والدین خدا سے تعلیم ملنے والی جگہ پراحساس انسانیت کے ملنے کی دعائیں کرنے لگتے ہیں زندہ آنکھوں میں مردہ خواب لیے کتنے والدین اسکولوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اسکول والے ان کی آنکھوں میں دیکھنے کی بجائے ان کی جیبوں میں دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے پڑھانے والے ٹیچرز اور پڑھنے والے طالب علم دونوں مالی مفاد کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ ٹیچرز اور طالب علم دونوں معاشرے کے حسن کے مقام سے بے قصور نیچے گرتے جا رہے ہیں ہر پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں پڑھتے طالب علموں کے والدین کئی ناجائز ظلموں کے خود شاہد ہیں یاد رکھیے کہ جس اسکول میں بچے خود کو پابند اور قید ہونے کے ساتھ الجھن و پریشانی میں مبتلا ہو کر حصول تعلیم کو ایک تکلیف دہ عمل سمجھنے لگیں وہ اسکول بچوں اور والدین کے لیے وقت اور پیسے کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف سرکاری اسکول جہاں ٹیچرز بھرتی ہونے کے لیے ایم اے اور بی ای ڈی کی ڈگری ہونا لازم ہے یعنی ٹیچرز کی اپنی تعلیم کا بھی تو کوئی پیمانہ ہونا چاہیے وہ لازمی طور پر سرکاری اسکول میں ہوتا ہے جہاں لوگ ماہانہ چند روپوں کی فیس میں بچے داخل کروانا کم پسند کرتے ہیں جس کی وجہ اسکول عمارت میں موجود سہولیات کا فقدان تصور کیا جاتا ہے جبکہ والدین کو عمارت کی بجائے علم سے غرض ہونی چاہیے اور اس کے برعکس کئی جگہ پرائیویٹ اسکول جہاں ٹیچرز کی قابلیت سرکاری ٹیچرز سے بھی کئی درجہ کم ہوتی ہے مگر عمارت کی خوبصورتی کلاس روم میں ایل سی ڈی جھولے ٹیبل کرسیاں اور آیا جیسی چیزیں بچوں اور والدین کو علم نظر آ تی ہیں جبکہ کلاس ٹیچرز اور اسکول سی ای او کی اہلیت کتنے لوگ دیکھتے ہیں جس علم کے حصول کے لیے آئے ہیں وہی نامعیاری حاصل ہوا تو بچے لے کر کیا جا رہے ہیں گورئمنٹ ایجوکیشن منسٹری کو ایسی قانون سازی کرنی چاہئے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا کے امتحانات اور رزلٹ کو خود جانچتیں تاکہ مصنوعی رزلٹ سے کلاس کے سارے بچوں کو ایوارڑ اور پوزیشین

ری علمی چشمے، سرکاری اسکول اور تعلیم فروش دُوکانیں