ٹک ٹوک کے امریکی صارفین انتہائی حساس مقامات پر بھی فلمبندی کا شوق پورا کرتے ہیں

امریکہ معسود ابدالی مختصر دورانئے کے بصری تراشوں کے اشاعتی مرکز ٹک ٹوک Tick Tokسے امریکہ بہت پریشان ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ ٹک ٹوک کے امریکی صارفین انتہائی حساس مقامات پر بھی فلمبندی کا شوق پورا کرتے ہیں۔ ان معصوم افراد کیلئے تو یہ تفریح اور دل لگی ہے لیکن یہاں نصب کئے جانیوالے بصری تراشوں کو چینی حکومت جاسوسی کیلئے استعمال کررہی ہے۔ ٹک ٹوک ایک چینی ادارے ByteDanceکی ملکیت ہے اور امریکی حکام کے مطابق چینی حکومت کو ٹک ٹوک کے تمام بصری مواد تک رسائی حاصل ہے گزشتہ ہفتے واشنگٹن نے دھمکی دی ہے کہ اگر ٹک ٹوک کسی امریکی ادارے کو فروخت نہ کیا گیا تو اس پر امریکہ میں پابندی لگادی جائیگی 2016 سے کاروبار شروع کرنے والے اس ادارے کے صارفین کی تعداد ایک ارب 80کروڑ سے زیادہ ہے جن میں 15کروڑ کے قریب امریکی ہیں۔گزشتہ برس ٹک ٹوک پر 68کروڑ بصری تراشے نصب کیے گئے۔ ادارے کی 55فیصد صارفین کا تعلق صنف لطیف سے ہے۔ گزشتہ سال ٹک ٹاک نے گیارہ ارب 65کروڑ ڈالر کمائے جس میں آخری سہ ماہی یعنی اکتوبر سے نومبر کے دوران آمدنی کا تخمینہ 6 ارب تھا امریکی حکومت کے خدشات و تحفظات کا جواب دینے کیلئے ٹک ٹوک کے سربراہ (CEO)شو زی چیو Shou zi Chewاگلے ہفتے واشنگٹن آرہے ہیں جہاں وہ امریکی کانگریس کی مجلس قائمہ برائے تجارت کے روبرو پیش ہونگے آج اپنے ایک ٹک ٹاک پیغام میں جناب چیو نے امریکی حکومت کے خدشات کو بے بنیاد قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ ٹک ٹوک ایک سوشل اور تفریحی پلیٹ فارم ہے اور اس پر پابندی سے پندرہ کروڑ امریکی رابطے کی اس مفت سہولت سے محروم رہ جائینگے امریکہ لہجے میں شستہ انگریزی بولنے والے جواں سال شو زی چیو کی بات کچھ غلط بھی نہیں ۔ حساس سیارچوں(سیٹیلائٹ) کے اس دور میں کیمروں سے لی گئی فلموں کی کیا حیثیت ہے ہمارے خیال میں امریکی حکومت کی نیت و ارادے کو آزادی اظہار رائے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرررت ہے کہ ذریعہ ابلاغ پر کسی بھی قسم کی قدغن سے صحافت، اظہار رائے اور شہری آزادی متاثر ہوتی ہے

ٹک ٹوک کے امریکی صارفین انتہائی حساس مقامات پر بھی فلمبندی کا شوق پورا کرتے ہیں