امریکہ کا پارلیمانی بحران۔۔ تعطل ختم لیکن کشیدگی باقی ہے

امریکہ معسود ابدالی قارئین کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دنیا کا سب سے خوشحال و دولتمند اور بزعم خود طاقتور ترین ملک کا سب سے طاقتور و موثر ادارہ، کانگریس (پارلیمان) 4 دن معطل رہا۔ امریکہ، آزاد و خودمختار پچاس ریاستوں پرمشتمل وفاق اور پانچ کالونیوں، گوام، ورجن آئی لینڈ، شمالی جزائر ماریانہ، سمووا اور پورتو ریکو کے مجموعے کا نام ہے۔۔ یہاں نظام حکمرانی کچھ اسطرح وضع کیا گیا ہے کہ صدر کا انتخاب وفاق کی سطح پر ہوتا ہےا ور مقننہ ریاستیں منتخب کرتی ہیں۔ امریکی کانگریس (مقننہ)، ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔ سینیٹ میں تمام ریاستوں کو مساوی نمائندگی حاصل ہے۔ ایوانِ بالا میں کالونیوں کو نمائندگی نہیں دی گئی اور ہر ریاست سے 2 سینیٹر منتخب کئے جاتے ہیں۔ یعنی امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے جو چھ سال کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ ایوان نمائندگان کی کل نشستیں 435 ہیں جو آبادی کے اعتبار سے تمام ریاستوں میں حلقوں کی بنیاد پر تقسیم کی کئی ہیں۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹں ڈی سی اور پانچوں کالونیوں سے ایک ایک نمائندے کا انتخاب ہوتا ہے تاہم یہ تمام صرف مبصر ہیں اور انھیں رائے شماری میں حصہ لینے کا حق نہیں۔ ایوان نمائندگان کی مدت دوسال ہے۔ ہر جفت (even) سال میں نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہیں، سینیٹ کی تشکیل اسطرح کی گئی ہے کہ ہر دوسال بعد انکے ایک تہائی ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ انتخابات کے بعد 3 جنوری کو کانگریس کے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے اور ایجنڈے کا پہلا نکتہ اسپیکر کا انتخاب ہے۔ نومبر کے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی نے ایوان نمائندگان کی 435 میں سے 222 نشستیں جیت کر برتری حاصل کرلی، اسکے مقابلے میں صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کو 213 نشستوں پر کامیابی ہوئی۔ ریاست ورجنیا کے حلقہ 4 سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک رکن ڈانلڈ مک ایشن (Donald McEachin)حلف اٹھانے پہلے 28 نومبر کو انتقال کرگئے۔اس نشست پر 21 فروری کو ضمنی انتخاب ہوگا۔ چنانچہ اسوقت ایوان نمائندگان کی 212 نشستوں پر ڈیموکریٹس براجمان ہیں۔ روائت کے مطابق پارلیمانی سال کےآغاز پر 3 جنوری کو اسپیکر کا انتخاب ہوا۔کیلی فورنیا سے ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس کیون میک کارتھی (Kevin McCarthy)سامنے آئے۔ ستاون سالہ میک کارتھی 2006 سے ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اسپیکر کیلئے 435 رکنی ایوان میں کم ازکم 218 ارکان کی حمائت ضروری ہے۔ اسپیکر کے انتخاب کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کئے جاتے اور جماعت اسلامی میں ہونے والے انتخاب کی طرح کسی بھی رکن کو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ چند دن پہلے سے ریپبلکن پارٹی میں بیچینی کے آثار تھے۔ قدامت پسند ارکان کے گروپ Freedom Caucusکا خیال ہے کہ میک کارتھی نظریاتی قدامت پسند نہیں اور وہ مقبولیت کے ہونکے میں لبرل و آزاد خیال عناصر سے مفاہمت کو برا نہیں سمجھتے۔ اگرچہ کہ سابق صدر ٹرمپ نے جناب میک کارتھی کی حمائت کا اعلان کیا ہے لیکن فریڈم کاکس کا خیال ہے کہ ٓ کانگریس میں سابق صدر کے خلاف مواخدہ کی تحریکوں کا قائدحزب اختلاف (minority leader)کی حیثیت سے جناب میک کارتھی نے موثر مقابلہ نہیں کیا۔ ریپبلکن پارٹی کے فریڈم کاکس کے ارکان کی تعداد 20 ہے۔ جب 3 جنوری کو پہلی رائے شماری ہوئی تو 203 ارکان نے میک کارتھی کے حق میں ووٹ دیا۔ تمام کے تمام 212 ڈیموکریٹس ارکان اپنے قائد حکیم جیفریز کی پشت پر کھڑے نظر آئے جبکہ 17 ریپبلکن نے مختلف افراد کے حق میں رائے دی۔ یعنی کسی کو بھی مطلوبہ اور فیصلہ کن 218 ووٹ نہ مل سکے۔ جب دوسری بار رائے شماری ہوئی تو میک کارتھی نے ایک بار پھر 203 ووٹ حاصل کئے، ڈیموکریٹس کے تمام 212 ووٹ حسبِ سابق اپبے قائد حکیم کے حق میں پڑے، 19 ریپبلکن نے ایک قدامت پسند رکن جم جورڈن کے حق میں رائے دی۔ شام کو تاخیر سے تیسری بار رائے شماری ہوئی تو مک کارتھی صاحب کا ایک ووٹ اور کم ہوگیا۔اس بار ریپبلکن پارٹی کے 202 ارکان نے کیون میک کارتھی کی حمائت کی اور 20 ارکان نے پارٹی کے سیاہ فام رکن بائرن ڈانلڈز کے حق میں رائے دی۔یہی مشق 6 جنوری تک جاری رہی اور 14 رائے شماریوں میں فیصلہ نہ ہوسکا۔ دنیا کی اکثر قانون ساز اداروں اور پارلیمانوں میں پہلے ارکان حلف اٹھاتے ہیں جسکے بعد اسپیکر کا انتخاب ہوتا ہے لیکن امریکہ میں کانگریس کے نگہبان custodian کی حیثیت سے پہلے اسپیکر کا تقرر ہوتا ہے جسکے بعد اسپیکر نئے ارکان سے حلف لیتے ہیں۔ تین جنوری کو پرانا ایوان مدت مکمل ہونے پر تحلیل ہوگیا اور نئے اسپیکر کی تقرری میں تعطل کی وجہ نیا ایوان تشکیل نہ پاسکا۔ امریکی آئین کے تحت قومی خزانے کی کنجی کانگریس کے پاس ہے چنانچہ نئے مطالبہ زر کی منظوری بھی ممکن نہ رہی۔ جانشینی کے اعتبار سے اسپییکر کا تیسرا نمبر ہے یعنی اگر صدر اور نائب صدر معذوری، موت یا مواخذے کی وجہ سے اپنی ذمہ اداکرنے سے قاصر ہوں تو شمعِ صدارت اسپیکر کے سامنے کردی جاتی ہے۔ ٹھیک ایک سو سال پہلے 1923 میں بھی اسپیکر کے انتخاب میں اسی نوعیت کا تعطل آیا تھا لیکن ریپبلکن پارٹی کے فریڈرک گلیٹ Frederick Gillettنویں رائے شماری کے بعد واضح اکثریت لینے میں کامیاب ہوگئے۔طوالت کے اعتبار سے موجودہ بحران امریکی تاریخ میں کانگریس کو دوسرا بڑا تعطل ہے۔ تقریباً 167 برس پہلے دسمبر 1855 میں جب اسپیکر کا مرحلہ آیا تو غلامی کے خاتمے اور امیگریشن کے معاملے پر امریکہ میں شدید خلفشار تھا۔ اس زمانے میں امریکہ 31 ریاستوں پر مشتمل تھا اور امریکی ایواان نمائندکان میں نشتوں کی تعداد 234 تھی۔ اُس بار 18 ریاستوں میں انتخابات چار اگست 1854 میں ہوے اور باقی 13 ریاستوں میں پندرہ ماہ بعد 6 نومبر 1855 میں ووٹ ڈالے گئے۔ سیاسی خلفشار سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا سبب بنا۔ اس سے پہلے تک امریکہ میں Whig اور ریپبلکن پارٹی کے درمیان مقابلہ رہتا تھا لیکن انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے Native

امریکہ کا پارلیمانی بحران۔۔ تعطل ختم لیکن کشیدگی باقی ہے